نبضوں کی پہچان :طب یونانی میں نبض دیکھنے کی دس باتوں کو سامنے رکھا گیاہے ۔

١۔مقدار نبض ۔ ٢۔قرع نبض ۔٣۔زمانہ حرکت ۔٤۔قوام آلہ ۔٥۔زمانہ سکون ۔٦۔مقدار رطوبت ۔٧۔شریان کی کیفیت ۔ ٨ ۔وزن الحرکت ۔ ٩ ۔استواء اختلاف نبض ۔١٠ ۔نظم نبض
۱۔مقدار نبض :
(طویل۔ عریض ۔مشرف)(طویل ۔ معتدل۔ قصیر )(عریض ۔ضیق ۔معتدل )(مشرف ۔ منخفض۔معتدل)
۲۔قرع نبض:(قوی ۔ضعیف ۔معتدل)
٣ ۔زمانہ حرکت:(سریع ۔بطی ۔معتدل)
٤۔ قوام آلہ:(صلب ۔لین ۔معتدل)
۵۔زمانہ سکون :(متواتر ۔متفاوت ۔معتدل)
٦۔مقدار رطوبت :(ممتلی ۔خالی ۔معتدل)
٧۔شریان کی کیفیت:(حار ۔بارد ۔معتدل)
٨ ۔وزن حرکت:(خارج الوزن۔ردی الوزن ۔جیدالوزن)
٩۔استواء اختلاف نبض:( استواء ۔اختلاف)
١٠۔نظم نبض :اس مین تقسیم نہیںہے۔
نظریہ مفرد اعضاء نے چھ شرائط نبض بیان کیں ہیں ۔
١۔مقام نبض ۔٢۔مقدار نبض ۔٣ ۔۔حجم نبض ۔٤۔رفتار نبض ۔٥۔قرع نبض ۔۶۔ قوام نبض۔
مفرد نبض کی اقسام تین ہیں کیونکہ اعضائے رئیسہ تین ہیں(دل دماغ اور جگر) ۔
نبضوں کی تعداد بھی تین ہوگی اس میں سےجس کا تعلق دماغ سےہے اسے اعصابی کہا جاتا ہے،جس کا تعلق جگر سےہے اسے غدی کہا جاتا ہے،جس کا تعلق دل سے ہے اسے عضلاتی کہا جاتا ہے۔ دل ایک مفرد عضو ہے اور اس کے دو خادم ہیں جن میں سےپہلا خادم ارادی عضلات ،دوسرا غیر ارادی عضلات تو نبض کی تقسیم بھی ان خادموں تک محدود رہے گی جگر کے بھی دو خادم ہیں( غدد جاذبہ وغدد ناقلہ )اسی طرح دماغ کے بھی دو خادم ہیں( حکم رساں اعصاب اور خبر رسان اعصاب)
مقدار نبض : تین تقسیمین ہیں (طویل ۔عریض ۔مشرف )
طویل :اس کی بھی تین تقسیمین ہیں(طویل ۔قصیر۔ معتدل)
طویل : وہ نبض جو اعتدال کی بنسبت لمبائی میں زیادہ محسوس ہو، یعنی چار انگلی یا اس سےبھی زیادہ محسوس ہوتی ہو۔ یہ نبض جسم میں حرارت بخار اور ورم کا پتہ دیتی ہے جبکہ جدید نظریہ میں اسے عضلاتی نبض کہتےہیں۔
قصیر نبض:یہ نبض طویل کے بالکل الٹ ہوتی ہے، یعنی چھوٹی ،یہ جسم میں حرارت کی کمی ظاھر کرتی ہے جو تپ ،لرزہ، خون کی کمی ،اندرونی زخم اور وجع القلب یعنی دل کے درد کی طرف اشارہ کرتیہےنظریہ جدید کے مطابق یہ نبض اعصابی ہے۔معتدل نبض :یہ نبض طویل اور قصیر کے بالکل درمیان والی نبض ہے یعنی نہ ہی لمبی نہ ہی چھوٹی یعنی اعتدال کا اظہار کرتیہے یہ نبض جدید کے مطابق غدیہے ۔
(نوٹ ) چارون انگلیوں کے پور جوڑ کر نبض پہ رکھتےہیں اگر نبض کی ٹپکن چاروں پوروں تک یا اس سے طویل محسوس ہو تو نبض طویل ہے اگر نبض دو تا تین انگلیون تک آتی ہے تو نبض قصیرہے ۔
عریض : وہ نبض ہے جس کی چوڑائی صحت مند شخص کی نبض سے زیادہ ہواس نبض میں رطوبت کی کثرت ،شدید اورام یعنی ورموں اور انتہائے تپ کی طرف اشارہ کرتی ہے اور نظریہ مفرداعضاء کے حساب سے اعصابی نبض کہتےہیں۔
ضیق نبض: وہ نبض ہے جو ایک تندرست شخص کی نبض کی نسبت چوڑائی میں کمہوتیہے جس سے رطوبت کی کمی ظاہر ہوتی ہے ایسی نبض تپ محرقہ ٹائیفائڈ ۔۔التہاب باریطوں ذات الجنب کی علامات کو ظاھر کرتی ہے نظریہ مفرداعضاء کے حساب سے یہ نبض عضلاتی ہے۔
معتدل نبض :عریض اور ضیق کے درمیان والی نبض یعنی نہ ہی زیادہ موٹی یا چوڑی ہو اور نہ زیادہ باریک یعنی تنگ نبض ہو درمیان والی معتدل کہلاتی ہے ۔
(نوٹ) جس طرح طویل نبض حرارت پر دلالت کرتیہے اسی طرح عریض نبض رطوبت پہ دلالت کرتی ہے نبض دیکھنے کا طریقہ یہ ہو گا کہ طبیب چاروں انگلیاں عمودًا نبض یعنی شریانِ کلائی پر کھڑا کردے پھر انگلیوں کے پوروں سے نبض کا احساس کرے اگر نبض کی چوڑائی طبیب کی انگلی کے پور کی نصف چوڑائی سے زیادہ ہو تو یہ نبض عریض ہے اگر نصف پور سے کم ہے تو نبض ضیق ہےاگر نصف پورے تک ہے تو نبض معتدل ہے ۔
نبض مشرف:لفظ شرف کے معنی بلندی کے ہیں لہذا ایسی نبض جو صحت مند شخص کی نبض سے زیادہ بلندہو مشرف کہلاتی ہے نظریہ مفرداعضاء کے تحت یہ نبض عضلاتی کہلاتی ہے جو حرکت وریاح کی کثرت پہ دلالت کرتی ہے ایسی نبض میں ریاح شکم یعنی پیٹ مین گیس یاہوا اور ذات الریہہ اور رعشہ اور انتہائےتپ میں یہ نبض ہوتی ہے ۔
منخفض: نبض منخفض یعنی پست نبض یعنی ایسی نبض جو نبض مشرف کے بالکل الٹ ہو یعنی پستی میں ہو یہ نبض منخفض کہلاتی ہے ۔
اس نبض میں حرکت کی بھی کمی ہوتی ہے تو ریاح میں بھی کمی ہوتی ہے ایسی نبض ہیضہ، قے ،اسہال، غشی اور اعصابی دردیں اور محرقہ جیسی علامات وامراض کو ظاھر کرتیہے نظریہ مفرداعضاء کے تحت یہ نبض اعصابی یعنی بلغمی مزاج کی ہوتی ہے۔
معتدل :ایسی نبض جو مشرف اور منخفض نبضوں کے درمیانہو معتدل کہلاتی ہے نظریہ کے تحت یہ نبض غدی ہوتی ہے
(نوٹ)چاروں انگلیاں مقام نبض پہ آہستگی سے رکھیں اگر انگلیاں رکھنے کے ساتھ ہی نبض کی تڑپ یعنی ٹپکن محسوس ہونے لگے تو سمجھ لین یہ نبض مشرف ہے،اگر انگلیاں رکھتےہوئے نبض کی ٹپکن محسوس نہ ہو تو آہستہ آہستہ دباؤ ڈالیں اگر بالکل نیچےہڈی کے ساتھ جاکر نبض اپنی ٹپکن کا احساس دلائےیعنی محسوسہو تو یہ نبض منخفض ہے اگر نبض نہ توہڈی کے قریب نہہی بالکل اوپر بلکہ سنٹر یعنی درمیان میں محسوس ہو یا ٹپکن انگلیوں کے ساتھ لگنا شروع ہوجائے تو یہ نبض معتدل ہے یا اسے غدی نبض کہہ سکتےہیں۔
قرع : قرع کے تین زمانے ہوتے ہیں( قوی ۔ضعیف ۔معتدل)
قرع کا مطلب ٹھوکرہےایسی ٹھوکر جو نبض دیکھتے وقت طبیب اپنی انگلیوں کے پوروںپہ محسوس کرتے ہیں اس ٹھوکر کو محسوس بھی تین طرح سے کیا جاتاہے ایک ٹھوکر وہ ہے جو بڑے زور سے لگے ایک ٹھوکر وہ ہے جسے محسوس کرنے کے لئے طبیب کو اچھا خاصا دھیان دینا پڑتا ہے یعنی بڑی ہی گہرائی میں نبض ہوتی ہے تیسری ٹھوکر وہ ہے جو درمیانی ہو نہ سخت اور نہ ہی کمزور ہو۔
قوی ٹھوکر:ایسی نبض جو انگلیوں کے پوروں کے ساتھ زور سے ٹکرائے وہ قوی نبض ہے یہ نبض قوت حیوانی یعنی ( قلب)کے قوی ہونے کا ثبوت فراہم کرتیہے مضرات رساں اثرات کو واضح کرتی ہے بخار کی شدت ،ابتداے اورام ،امراض حادہ اور جریان خون کی پیش گوئی کرتی ہے نظریہ مفرداعضاء کے تحت یہ نبض عضلاتی ہوتی ہے۔
ضعیف نبض :قوی کے بالکل متضاد یعنی کمزور،ایسی نبض جو قوت حیوانی کے بالکل کمزورہونے پہ دلالت کرتی ہے یعنی گہرائی میں محسوسہوگی ایسی نبض ضعف قلب خون کی کمی بلغم کی کثرت ہاضمہ کی خرابی جیسی علامات کو ظاھر کرتی ہے نظریہ مفرداعضاء کے تحت یہ نبض اعصابی یعنی بلغمی ہے ۔
معتدل نبض :یہ نبض قوی اور ضعیف کے درمیان واقع ہوتی ہے یعنی نہ تو زیادہ قوی ہوتی ہے نہ ہی زیادہ ضعیف ہوتی ہے ایسی نبض عمدہ صحت کی علامات سمجھی جاتی ہے نظریہ کے تحت یہ نبض غدی ہوتی ہے ۔
(نوٹ ) چاروں انگلیاں مریض کی کلائی پررکھنے سے اگرشریان پوروں کو زور سے پیچھے دھکیلے تو نبض قوی کہلائے گی اگر کلائی پر آہستگی سے انگلیاں رکھنے پر نبض محسوس نہ ہو ،انگلیوں پہ تھوڑا دباؤ دینے سے نیچےہڈی کے پاس معلوم ہو تو نبض ضعیف کہلائےگی اگر معمولی سا دباؤ دینے سے نبض معلوم ہونا شروع ہوجائے تو نبض معتدل کہلائےگی۔
زمانہ حرکت :طب کی رو سے نبض کےتین زمانے ہیں اس میں سےپہلے زمانے کو سریع ،دوسرے کو بطی اور تیسرا معتدل کہلاتا ہے ۔
نبض سریع : اس نبض کو کہتے ہیں جو تھوڑی مدت میں ختم ہوجا ئے یعنی ایک دفعہ طبیب کے پور سے ٹکرائی پھر اعتدال سے جیسے نبض ٹپک کر دوبارہ انگلی کے پوروں سے وقفہ لے کر ٹکرانی چاہیے لیکن اس وقفہ کی مدت کم ہو جاتی ہے اسے نبض سریع کہتے ہیں یہ صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب خون میں شامل آکسیجن کی مقدار کم ہوتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ جاتی ہے جب خون میں شامل آکسیجن کم مقدارہو تو دل باربار طلب کو پورا کرنے کے لئے تیزی سے عمل کررہاہوتا ہے بجائے آکسیجن کے کاربن زیادہ جذب ہو رہی ہوتی ہے تو لازما دل کو زور یا کام زیادہ کرنا پڑے گا ایسی صورت میں بدن میں لازمی مسائل پیدا ہونگے یہ کیفیت سگریٹ حقہ پینے اور زیادہ دہویں والی جگہوں پہ کام کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے اب اس میں عام سے مسائل جو بدن مین ظاہر ہوتے ہیں وہ پیٹ میں ریاح کی کثرت ،حرارت کی کمی ،اختلاج قلب ،تسکین جگر اور ضعف اعصاب جیسی علامات آشکار ہوتی ہیں نظریہ مفرداعضاء ایسی نبض کو عضلاتی کہتا ہے۔
نبض بطی:یہ بالکل سریع کے مخالف نبض ہوتی ہے یعنی اس میں نبض ٹپکنے کا عرصہ یا زمانہ یا اسے وقفہ کہہ لیں زیادہہوتاہے یہ ایک دفعہ پور سے ٹکرائی پھر جیسے بھولہی گئی پھر یاد آیا پھر آکر ٹکرا گئی اسے نبض بطی کہتےہیں اس مین پیداہونے والی عام علامات ضعف قلب سوزش جگر جیسیہوا کرتیہین یہ نبض رطوبت سے پرہوتیہے یعنی کثرت رطوبات اور حرارت کی کمی کا اظہار کررھی ہوتی ہے اسے نظریہ مفرداعضاء کے مطابق اعصابی نبض کہتےہیں۔
معتدل زمانہ یا معتدل نبض زمانہ۔۔۔۔سریع بھی نہ ہو بطی بھی نہ ہو یعنی درمیان والی کیفیت ہو نبض معتدل ہی کہیں گے
(نوٹ)انبساط اور انقباض کے درمیان وقفہ میں تیزی ہو تو نبض سریع ہے اور سستی پائی جائے تو نبض بطی ہے اگر انبساط اور انقباض کا درمیانی وقفہ برابرہو تو نبض معتدل ہے۔
قوام آلہ : نبض کی سختی اور نرمی کو قوام آلہ کہتےہیں اس کے تحت بھی تین نبضیں ہیں( صلب ۔۔لین ۔۔۔معتدل)
صلب:ایسی نبض انگلیوں کے پوروں کو سخت محسوس ہو ایسی نبض خشکی پر دلالت کرتی ہے سخت سے مراد تنی ہوئی جس میں لچک کم ہو یہ مرض رعشہ ذات الریہہ ،امراض گردہ ،تصغیر القلب عموما دلالت کرتی ہے۔ویاگرہ کھانے کے بعد یہی نبض ہوا کرتی ہے اگر مریض کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہو تو ایسی نبض نظر آ تو سمجھ لین وہ مریض یا تو آتشک میں مبتلاہے یا شراب نوشی کا عادی ہے نظریہ مفرداعضاء کے تحت یہ نبض عضلاتی ہے۔
لیّن نبض :ایسی نبض جو نرم ہو یعنی صلب کے بالکل الٹ والی نبض ہو تو یہ کثرت رطوبات کا اظہار کرتی ہے جس سے خون کی کمی اندرونی زخم شوگر جیسی امراض میں ہوا کرتی ہے نظریہ کے تحت یہ اعصابی نبض ہے
معتدل : نہ نبض سخت ہو نہ ہی نرم یعنی درمیان والی ہو اسے متوسط نبض بھی کہتےہیں یہ نظریہ کے تحت غدی نبض ہے جبکہ طب قدیم اسے معتدل نبض کہتےہیں ۔
دستور کے مطابق نباض مریض کی نبض پہ انگلیوں کے پورے رکھے اگر انگلیاں رکھتےہی نبض سخت اور تنی ہوئی معلوم ہو تو صلب نبض ہے دبانے سے پوروں کے نیچے سے بے شک پھسل جائےلیکن اپنا تناؤ نہ چھوڑے تو یہ نبض صلب ہے اگر نرم ملائم آسانی سے دب جانے والی یا ڈھیلی نبض محسوس ہو تو یہ لین ہے اب نہ تو زیادہ تنی ہو نہ ہی زیادہ نرم ہو درمیان والی ہو تو معتدل نبض ہے ۔
پانچوین قانون زمانہ سکون سے شروع ہو گا اسکی بھی تین ہی قسمین ہیں (متواتر ۔۔۔۔متفاوت۔۔۔۔۔معتدل)
متواتر :ایسی نبض جس میں دوٹھوکروں کا درمیانی وقفہ کم ہو متواتر نبض کہلاتی ہےیہ نبض قوت حیوانی کے ضعف کی علامت ہے سوزش قلب ،ورم عضلات ،ذات الریہہ ،سرسام اور دیگر اورام کو ظاہر کرتی ہے ۔
متفاوت:یہ نبض متواتر کے مخالف ہوتی ہے قوت حیوانی کی زیادتی پردلالت کرتی ہے اس نبض کے تحت اختلاج قلب ریاح شکم بواسیر احتراق معدہ وغیرہ امراض پیداہوتےہیں۔
معتدل:ایسی نبض جو متواتر اور متفاوت کے درمیان یعنی کمی بیشی کا اظہار نہ کرے اور اعتدال سے اپنے سفر پہ روان دوان رھے معتدل کہلاتی ہے۔
مقدار رطوبت :اس عنوان میں بھی نبض کی تین ہی قسموں کو بتایا گیاہے(ممتلی۔خالی ۔معتدل)
ممتلی نبض:ممتلی کے لفظی معنی ہیں بھری ہوئی یعنی ایسی نبض جو روح اور خون سے بھری ہوئی ہو یعنی کثرت روح و خون پہ دلالت کرتی ہے اس سے ابتدائی مرض حادہ بلڈ پریشر اور التہاب کا پتہ چلتاہے ۔
خالی نبض:ممتلی کے بالکل الٹ یعنی نبض پہ ہاتھ رکھتےہی محسوس ہو جیسے نرم سا لچکدار خالی پائپ ،خالی نبض جریان خون ذیابیطس اندرونی زخم اور اواخر امراض حادہ کا اظہار کرتی ہے۔
نبض معتدل:ایسی نبض جو ممتلی اور خالی کے درمیان ہو ۔
نوٹ: انگلیوں کے پورمریض کی کلائی پہ رکھے اگر شریان بھری محسوس ہو جیسے ٹیوب میں پانی ہوتاہے تو نبض ممتلی ہے
اگر یوں محسوس ہو جیسے خالی ٹیوب ہوتی ہے تو مریض کے جسم میں خون کی بڑی ہی کمی ہے انتہائی کمزوری کی علامت ہے ۔
قانون نمبر سات کی جسے طبی زبان میں شریان کی کیفیت کہتےہیں شریان کی کیفیت میں تین ہی اقسام کا ذکرہے (حار،بارد، معتدل)
نبض حار:ایسی نبض جو پوروں کو گرم محسوس ہو یعنی خون اور ریاح کی گرمی صفرا کی کثرت ۔۔بخار اور سوزش جگر کو واضح کرتی ہے لازما یہ غدی نبض ہے۔
بارد نبض:ایسی نبض جو پوروں کو ٹھنڈی محسوس ہو یعنی سرد لگے بارد نبض کہلاتیہے اور بارد کا مطلب برودت ہے نزلہ زکام کھانسی ضعف معدہ ضعف قوت ۔۔اور مزمن امراض کا اظہار کرتی ہے۔
نبض معتدل :نہ گرم لگے نہ ہی سرد لگے یعنی ٹمریچر نارمل لگے
قانون نمبر آٹھ وزن حرکت کا ہے۔
وزن حرکت:اس کی بھی تین ہی صورتین ہیں(خارج الوزن۔ردی الوزن ۔جیدالوزن )
خارج الوزن:ایسی نبض جس کا انبساط اور انقباض غیر مساوی ہو یعنی مذکورہ دونون کیفیات میں کمی بیشی پائی جائے ایسی نبض ضعف باہ کثرت بول پھیپھڑوں کی کمزوری بلغم کی کثرت کو واضح کرتی ہے اعصابی نبض ہوتی ہے۔
ردی الوزن:یہ اس نبض کو کہتےہیں جو عمر کے لحاظ سے اپنا صحیح یعنی درست وزن ظاھر نہ کرے یعنی بچہ بوڑھا اور جوان کی نبض اپنی عمر اور طاقت کا درست تعین نہ کرے بچے کی نبض ایسے محسوس ہو جیسے جوان ہے یا بوڑھا آدمی ہے اسی طرح جوان کی نبض بوڑھے والی یا بچے والی ظاھرہو۔
جید الوزن:یہ ایسی نبض ہے جس کا انبساط اور انقباض مساوی ہو یعنی اس کے پھیلنے اور سکڑنے کا زمانہ یا وقت اعتدال پہ ہو بالکل برابرہو ی نبض صفراوی ہوتی ہے اور اسے طبی زبان میں معتدل نبض کہتےہیں۔
مرکب نبضوں کی اقسام :
عظیم نبض:یہ ایسی نبض ہوتی ہے جو طویل بھی ہو عریض بھی ہو اور شرف میں بھی زیادہ ہو جسم میں قوت حرارت اور رطوبت کی کثرت پہ دلالت کرتی ہو اسے طویل نبض کہا گیاہے ۔
طویل نبض اس کو کہتےہیں جو طبعی حالت سے زیادہ لمبی ہو یعنی یہ نبض معتدل شخص کی نبض کی نسبت زیادہ لمبی ہوتی ہے اور یہ نبض حس اور حرارت کی زیادتی کا اظہار کرتی ہے یہ نبض عموما عضلاتی غدی ہوا کرتی ہے کیونکہ نظریہ مفرداعضاء میں طویل نبض عضلاتی تحریک کا اظہار کیا کرتی ہے دل کا مزاج خشک ہے کیونکہ جب قلب کے فعل میں تیزی ہوتی ہے تو جسم مین خشکی کی زیادتی اور رطوبت حرارت کی کمی واقع ہو جاتی ہے عضلات رطوبات کی کمی کی وجہ سے بچکےہو ئے گال ہوتےہیں اور سارا جسم ہی مریض کا دبلا پتلا نظر آتاہے اب چونکہ کلائی پہ بھی باقی جسم کی نسبت گوشت کم ہی نظر آتاہے جس کی وجہ سے نبض دبی ہوئی نیچے نہیں بلکہ اوپر نظر آتی ہے اور چار انگلیوں سے زیادہ نبض ہوتی ہے نظریہ مفرداعضاء کے تحت طویل نبض کی دوہی اقسام ہیں۔(عضلاتی اعصابی ،عضلاتی غدی)
چونکہ عضلاتی اعصابی میں ابھی کچھ نہ کچھ رطوبت باقی ہوتی ہے اس لئے عضلاتی غدی کی نسبت قدرے موٹی ہوتی ہے اور لمبائی میں بھی اس سے کم ہوتی ہے یعنی عضلاتی غدی تمام نبضوں سے لمبی ہوتی ہے نبض طویل شدیدہو ساتھ تری ممکن نہیں ہے ۔
نبض صغیر: یہ نبض بالکل نبض عظیم کے متضادہے یہ حرارت کی کمی کا اظہار کرتی ہے ۔
نبض معتدل :ایسی نبض جس میں حرارت ۔ قوت۔اور رطوبت یعنی سب کچھ ایک جیسا برابر یعنی اعتدال پہ ہو وہ نبض معتدل کہلاتی ہے ۔
نبض غلیظ:ایسی نبض جو چوڑائی یعنی عریض ہو اور بلندی یعنی شرف میں زیادہ ہو ایسی نبض خشکی اور سردی پر دلالت کرتی ہے یعنی سوداوی غلبہ شروع ہوا تو نبض غلیظ ہو گی جب نبض کا قرع سکڑاہوا ہو اور کلائی کی ہڈی کے پاس ایک انگلی پہ محسوس ہو تو سردی تری کی علامت ہے قرع سکڑاہواہو اور نبض کلائی کی ہڈی کے پاس صرف ایک انگلی پہ محسوس ہو تو ساتھ یہ وضاحت ہونی چاھیے تھی نبض برابرہو یعنی یہ نہیں ہونا چاھیےہتھیلی کی طرف سے موٹی اور دوسری طرف سے باریک محسوس ہو یعنی چوھے کی دم کی طرح اگر ایسی محسوس ہو تو اسے نبض ذنب الفار کہتے ہیں۔
غزالی نبض : ایسی نبض جو انگلیوں کے پوروں کو ایک ٹھوکر لگانے کے بعد دوسری ٹھوکر اتنی جلدی لگا ئے کہ اس کا لوٹنا اور سکون کرنا محسوس تک نہ ہو ۔
(نوٹ )یہ نبض اس بات پہ دلالت کرتی ہے جب حرکات کی کثرت ہوتی ہے تو کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ریاح کی شدت ہوا کرتی ہے اور آکسیجن کی کمی ہوا کرتی ہے ۔